اہم ترین

دیامر بھاشا ڈیم متاثرین ڈیم کادھرنا 11ویں روز میں داخل

پلان بی کا اعلان

گلگت (خصوصی رپورٹ:- کرن قاسم)

متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کا دھرنا آج 11 ویں روز میں داخل ہو گیا لیکن ان کے مطالبات حل جانب گامزن ہونے دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور احتجاج کا عمل روز بہ روز مضبوط ہو کر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے احتجاج ختم کرانے کے حوالے سے حکومتی مذاکراتی پینل کو بھی بری طرح ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا جس کی وجہ سے احتجاج کو اب آگے بڑھانے کے لئے متاثرین ڈیم کمیٹی 27 فروری سے پلان B کے تحت تحریک کا اگلا سفر شروع کرنے جا رہی ہے جبکہ منگل کی شام چلاس احتجاج میں باقاعدہ پلان B کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرنے ایک دن کی مہلت دی گئی ہے واضح رہے کہ گزشتہ ایک عرصے سے متاثرین دیامر بھاشا ڈیم نے اپنے معاوضوں کی ادائیگی سمیت دیگر مطالبات کے حل کے لئے احتجاج پہ احتجاج کرتے آرہے ہیں لیکن ہر بار انھیں بیورو کریسی و حکومت اور واپڈا کی جانب سے جھوٹے یقین دہانیوں کے ذریعے حقوق سے محروم رکھا گیا جس کے بعد دیامر عوام کا ایک نئی تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر اتفاق ہوا اور اس نئی تحریک کے سفر دوران دیامر عوام نے عہد کیا کہ وہ آپس کی تمام تر خاندانی دشمنیاں ختم کر کے میدان میں اتریں گے اور تحریک کو فلاد کی طرح مضبوط کر دینگے جس کے بعد دیامر علماء کرام کی قیادت میں حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک کا قیام عمل میں لاتے ہی 13 فروری 2025 کے روز حکومت اور واپڈا کو متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کے مطالبات حل کرنے 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا گیا اور کہا گیا کہ دی گئی مہلت میں اگر مطالبات حل نہ ہونے کی صورت اتوار 16 فروری سے چلاس ائیرپورٹ روڈ پر پلان A کے تحت احتجاج کا سفر اختیار کیا جائے گا لیکن 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود حکومت یا واپڈا کی طرف سے متاثرین ڈیم کے ساتھ مذاکراتی نشست رکھنے تک گوارا نہیں کیا گیا اور 16 فروری کو مجبوراً دیامر عوام کی ایک بڑی تعداد چلاس میں احتجاج کی شکل اختیار کر گئی اور اس دوران احتجاجی مجموعہ میں باقاعدہ سٹیج سے شرکاء و کمیٹی کے افراد سے قرآن مجید پر حلف لیا گیا کہ وہ اس تحریک میں حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ڈیم علماء کمیٹی کا جو فیصلہ ہو گا اس پر سب عمل کرنے کے پابند ہونگے جب چلاس میں حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک نے 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کا اجراء کرتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا تو گلگت بلتستان بھر کے سیاسی و سماجی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے نہ صرف اس تحریک کو حمایت حاصل ہوئی بلکہ روزانہ کے بنیاد پر گلگت، نگر، بلتستان اور غذر سے اظہار یکجہتی کے طور احتجاج میں شرکت کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم علی میثم، سابق اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈووکیٹ، رکن اسمبلی نواز خان ناجی سمیت دیگر ارکان اسمبلی نے بھی احتجاج میں شرکت کر کے خطاب کے دوران جاری تحریک کی بھرپور حمایت کی ہے اسی طرح جماعت اسلامی گلگت بلتستان کی صوبائی قیادت نے باقاعدہ گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کی طرف سے جاری 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کی مکمل تائید کرتے ہوئے حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کیا ہے جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان، تحریک انصاف اور انجمن امامیہ و اسماعیلی کونسل اور اہلسنت والجماعت سمیت دیگر مذہبی و سیاسی قیادتِ اور دیگر جماعتوں کے قائدین بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب پانی سر سے گزر جانے لگتا ہے تو حکومت مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے شروع دن جب متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کی طرف سے 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا گیا تھا اس وقت حکومت آگر متاثرین کے ساتھ مذاکرات رکھتی تو نوبت احتجاج تک نہیں پہنچی جب 16 فروری سے چلاس کے احتجاج میں عوام بڑی تعداد جمع ہونا شروع ہو گئی اور مجموعہ بڑھنے لگا تب وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے وفاقی وزراء پر مبنی 7 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن اس کمیٹی کا کردار بھی سوائے سبز باغ دکھانے کے علاؤہ کوئی مثبت حل موجود نہیں تھا وفاقی کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے گزشتہ روز وفاقی وزیر امیر مقام گلگت آئے اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے ہمراہ بزریعہ ہیلی کاپٹر چلاس پہنچ کر قراقرم یونیورسٹی ہال میں متاثرین ڈیم کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھا لیکن طویل مذاکرات کے باوجود وفاقی وزیر امیر مقام متاثرین ڈیم کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہوئے اس دوران وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے تجویز دی کہ پہلے ایک ماہ تک دھرنا معطل کیا جائے پھر صوبائی حکومت اور واپڈا پر مشتمل ایک نئی کمیٹی چارٹر آف ڈیمانڈ متعلق مذاکرات کا عمل شروع کرے گی جس پر متاثرین ڈیم کمیٹی نے صاف انکار کردیا اور پلان بی پر عمل کرتے ہوئے احتجاج کا دائرہ کار بڑھانے اور سخت فیصلے کرنے کو ترجیح دی اس حوالے سے حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک کے سربراہ مولانا حضرات اللہ نے منگل کے روز پلان بی کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے وفاقی حکومت کو ایک دن یعنی 26 فروری کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ متاثرین ڈیم کمیٹی سے مذاکرات میں اگر سنجیدہ ہیں تو چلاس آجائیں مذاکرات اسلام آباد میں نہیں ہونگے 26 فروری کے دن حکومت کی طرف سے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار نہیں کی گئی تو پہلے مرحلے میں چلاس ائیرپورٹ روڈ سے احتجاج کا یہ عوامی سیلاب پُرامن طریقے سے شاہراہِ قراقرم کی جانب مارچ کرے گا پھر بھی حکومت چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں رہی تو عوامی سیلاب کا یہ رخ دیامر بھاشا ڈیم میں جاری تعمیراتی کام رکوانے کی طرف ہوگا جبکہ دوسری جانب دیامر عوام سے اظہار یکجہتی کے طور پر اس تحریک میں شامل ہونے گلگت ڈویژن کے چاروں اضلاع کی عوامی ریلیاں ایک ریلی کی قیادت میں 27 فروری کو گلگت گھڑی باغ سے چلاس روانہ ہوگی متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کمیٹی نے وفاقی حکومت کو مزید ایک دن کی مہلت دی ہے اب بھی ایک دن کا وقت ہے حکومت آگر مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرنے اور چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے کوئی راستہ اختیار کرنے میں کردار ادا کرے تو پُرامن طریقے سے چلاس کا احتجاج ختم ہونا ممکن ہے ورنہ یہ احتجاج وفاقی و صوبائی حکومت دونوں کے لئے ۔مشکلات کا باعث بنے گا

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button